PDA

View Full Version : Ramzan special Ramzan Ki Fazeelat In Ahadees



Ramadan-ul-Mubarak
07-23-2012, 06:13 PM
Ramzan Ki Fazeelat
Ramzan Ki Tasbehaat
Ramzan Ki duain
Ramzan Ki Batien
Ramzan Special Programs
Ramzan Debates
Ramzan Shows




روزوں کی فضیلت احادیث صحیحہ کی روشنی میں

رمضان المبارک کا مہینہ بڑی فضیلت و اہمیت کا حامل ہے، اس کی فضیلت متعدد حیثیتوں سے ثابت ہے۔
۱ جیسے رمضان کے روزے رکھنا، اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔


۲ اسی مہینے میں قرآن مجید کا نزول ہوا:﴿ شَهْرُ* رَ*مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ*آنُ ﴾ (البقرة: ۲/۱۸۵) جس كا ايك مطلب تو بعض علماء اور مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ سب سے پہلی وحی جو غار حرا میں بصورت ﴿ اقْرَ*أْ بِاسْمِ رَ*بِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴾ جبریل امین لے کر آئے، وہ رمضان المبارک کا واقعہ ہے ۔ اور دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن مجید پورا کا پورا لیلة القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتار دیا گیا، اور لیلة القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔


۳ اسی ماہ مبارک میں لیلة القدر ہوتی ، جس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَيْلَةُ الْقَدْرِ* خَيْرٌ* مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ* ﴾ (سورة القدر) ’’شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘ ہزار مہینے کے ۸۳ سال ۴ مہینے بنتے ہیں ۔ عام طور پر انسانوں کی عمریں بھی اس سے کم ہوتی ہیں۔ لیکن اس امت پر اللہ تعالیٰ کی یہ کتنی مہربانی ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اسے لیلة القدر سے نواز دیتا ہے، جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے ۸۳ سال کی عبادت سے بھی زیادہ اجر و ثواب حاصل کر سکتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
(انہ سمع من یتق بہ۔۔۔۔خیر من الف شہر)
(موطا امام مالک، الاعتکاف، باب ماجاء فی لیلة القدر ۳۲۱/۱ طبع مصر)


’’انہو ں نے بعض معتمد علماء سے یہ بات سنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے پہلے لوگوں کی عمریں دکھلائی گئیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ آپ کیا مت کی عمریں ان سے کم ہیں اور اس وجہ سے وہ ان لوگوں سے عمل میں پیچھے رہ جائے گی، جن کو لمبی عمریں دی گئیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ازالہ اس طرح فرما دیا کہ امت محمدیہ کے لیے لیلة القدر عطا فرما دی۔‘‘


۴ اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ فرض کیے ہیں اور روزہ رکھنا بھی نماز، زکوٰة اور حج و عمرہ کی طرح ایک نہایت اہم عبادت ہے۔ اور روزے کی فضیلت متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں فرمایا:
(إذا دخل شهر رمضان فُتحت أبواب السماء وغُلِّقت أبواب جهنم وسُلسِلت الشياطين) (صحیح البخاری، الصوم، ح:۱۸۹۸)


’’جب رمضان جب رمضان آتا ہے تو آسمان (اور ایک روایت میں ہے جنت) دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور (بڑے بڑے) شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘
(الصوم جنۃ یسجن بھا العبد من النار) (صحیح الجامع، ح:۳۸۶۷)
’’روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے۔‘‘


ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
(الصوم جنة من عذاب الله ) (صحیح الجامع، ح:۳۸۶۶)
’’روزہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے (بچاؤ کی ) ڈھال ہے۔‘‘


ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من صام يوما في سبيل الله، بعد الله وجهه عن النار سبعين خريفا) (صحیح البخاری، الجھاد والسیر ، باب فضل الصوم فی سبیل اللہ، ح:۲۸۴۰ وصحیح مسلم، الصیام، فضل الصیام فی سبیل اللہ۔۔۔ح:۱۱۵۳)
’’جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا، تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال (کی مسافت کے قریب) دور کر دیتا ہے۔‘‘


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ان فی الجنة بابا یقال لہ۔۔۔۔۔۔۔۔فلم یدخل منہ احد) (صحیح البخاری، الصوم، باب الریان للصائمین، ح:۱۸۹۶ وکتاب بدء الخلق، ح: ۳۲۵۷ وصحیح مسلم، باب فضل الصیام، ح۱۱۵۲)
’’جنت (کے آٹھ دروازوں میں سے) ایک دروازے کا نام ’’ رَیّان‘‘ ہے، جس سے قیامت کے دن صرف روزے دار داخل ہوں گے، ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہوگا، کہا جائے گا روزے دار کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہو جائیں گے اور (جنت میں داخل ہوں گے) ان کے علاوہ کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے، تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی اس سے داخل نہیں ہوگا۔‘‘


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(الصیام والقرآن یشفعان۔۔۔۔۔۔ فیشفعان) (صحیح الجامع، بحوالہ مسند احمد، طبرانی کبیر، مستدرک حاکم وشعب الایمان، ح:۳۸۸۲، ۷۲۰/۲)
’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا : اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے (پینے) سے اور جنسی خواہش پوری کرنے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں سفارش قبول فرما۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(فتنة الرجل فی اھلہ ومالہ۔۔۔۔۔۔والصدقة) (صحیح البخاری، الصوم، باب الصوم کفارة، ح:۱۸۹۵ وصحیح مسلم، الایمان باب رفع الامانة والایمان من بعض القلوب۔۔۔۔ الخ، ح:۱۴۴)
’’آدمی کی آزمائش ہوتی ہے اس کے بال بچوں کے بارے میں، اس کے مال میں اور اس کے پڑوسی کے سلسلے میں۔ ان آزمائشوں کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ ہیں۔‘‘


آزمائش کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ مذکورہ چیزوں کے ذریعے سے انسانوں کو آزماتا اور ان کا امتحان لیتا ہے۔ اولاد کی آزمائش یہ ہے کہ انسان ان کی فرط محبت کی وجہ سے غلط رویہ، یا بخل یا خیر سے اجتناب تو اختیار نہیں کرتا، یا ان کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی تو نہیں کرتا؟ مال کی آزمائش یہ ہے کہ انسان اس کے کمانے میں ناجائز طریقہ تو اختیار نہیں کرتا، اسی طرح اسے خرچ کرنے میں اسراف سے یا بخل سے تو کام نہیں لیتا؟ پڑوسی کی آزمائش یہ ہے کہ انسان اس کے آرام و راحت کا خیال رکھتا ہے یا نہیں، اس کے دکھ درد میں اس کا معاون اور دست و بازو بنتا ہے یا نہیں؟


ان ذمے داریوں کی ادائیگی میں جو کوتاہیاں انسان سے ہو جاتی ہیں۔ نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات ان كا كفاره بن جاتے ہیں اور کوتاہیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ﴾ (ھود:۱۱۴)’’نیکیاں برائيوں کو دور کر دیتی ہیں۔‘‘ اس حدیث و آیت سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کو نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات اور دیگر نیکیوں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے، تاکہ یہ نیکیاں اس کی کوتاہیوں اور گناہوں کا کفارہ بنتی رہیں۔


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(للصائم فرحتان یفرحہما۔۔۔۔۔فرح بصومہ) (صحیح البخاری، الصوم، باب ھل یقول انی صائم اذا شتم، ح:۱۹۰۴، وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل الصیام، ح:۱۱۵۱)
’’روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک جب وہ روزہ کھولتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسری خوشی) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے سے خوش ہوگا۔‘‘


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(والذی نفس محمد بیدہ!۔۔۔۔۔۔ من ریح المسک) (صحیح البخاری، الصوم، باب ھل یقول: انی صائم اذا شتم، ح:۱۹۰۴ وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل الصیام، ح:۱۱۵۱)
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بدلی ہوئی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘


خُلْفَہ یا خَلُوف اس بو کو کہتے ہیں جو معدے کے خالی ہونے پر روزے دار کے منہ سے نکلتی ہے۔ یہ بو عام حالات سے مختلف اور بدلی ہوئی ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث قدسی بیان فرمائی، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:


(الصیام لی وانا اجزی بہ) (صحیح البخاری، باب فضل الصوم، ح:۱۸۹۴ وصحیح مسلم، باب ورقم مذکور)
’’روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا۔‘‘


یعنی دیگر نیکیوں کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ ﴿الحسنة بعشر امثالھا﴾(حوالہ ہائے مذکورہ) نیکی کم از کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ سات سو گناہ تک ملے گا۔ لیکن روزے کو اللہ تعالیٰ نے اس عام ضابطے اور کلیے سے مستثنیٰ فرما دیا اور یہ فرمایا کہ قیامت والے دن اس کی وہ ایسی خصوصی جزاء عطا فرمائے گا، جس کا علم صرف اسی کو ہے اور وہ عام ضابطوں سے ہٹ کر خصوصی نوعیت کی ہوگی۔